سمیر اجمل Author HumDaise View all posts
سمیر اجمل
رفاقت مسیح کی عمر 37 سال ہے اور اسے چلنے میں پھرنے کے حوالے س دشواری کا سامناہے‘ جس کی وجہ سے وہ محنت مزدوری کرنے سے قاصر ہے جبکہ کوئی اور کام (گاڑی ’رکشہ وغیرہ چلانا) بھی اس کے لئے مشکل ہے رفاقت مسیح کا کہنا ہے کہ والدین کے مطابق چھ یا سات سال کی عمر تک میں عام بچوں کی طرح کھیلتا کودتا تھا اور اسے چلنے پھرنے میں بھی کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ تھا مگر پھر اچانک ایک بیماری کی وجہ سے اس کی ٹانگوں میں فرق آگیا‘ ا س کی ایک ٹانگ تھوڑی چھوٹی ہوگئی جس کی وجہ سے اسے چلنے پھرنے میں مشکل آنے لگی اور پھر جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی گئی یہ مشکل بھی بڑھتی گئی اور اب اس کے لئے چند قدم چلنا بھی دشواری ہے کیونکہ تھوڑا سا چلنے لینے یا وزن اٹھانے کی صورت میں اس کی ٹانگو ں میں درد شروع ہوجاتاہے اس لئے وہ محنت والا کوئی کام نہیں کرسکتا ہے‘اس کی خواہش تھی کہ وہ گاڑی یا رکشہ وغیرہ چلا کے اپنااور اہل خانہ کا پیٹ بھر سکے مگر معذوری کے باعث وہ یہ کام نہیں کر سکتاہے۔کچھ عرصہ قبل اسے پتہ چلا تھا کہ بیت المال کی جانب سے جسمانی معذوری کے شکار افراد (افراد باہم معذوری) کو ماہانہ بنیادوں پر امدا دی جاتی ہے اس نے بیت المال کو دو بار درخواست بھجوائی ہے مگر کسی قسم کی مالی امداد نہیں ملی ہے‘ سوشل ویلفیئر کے دفتر بھی کئی چکر لگائے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے‘ موجودہ حکومت کی جانب سے افراد باہم معذوری کے لئے خصوصی امداد کا اعلان کیا گیاہے اس کے لئے بھی اس نے درخواستیں بھجوائی ہے مگر ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ رفاقت مسیح کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جسمانی معذوری کا شکار افراد کی مدد اور بحالی کے لئے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر صورتحال اس کے برعکس ہے وہ حکومتی رویے سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں اور انہیں لگتا ہے حکومتی اعلانا ت محض بیان بازی ہے ان کے لئے نہ کسی نے پہلے کچھ کیا ہے اور نہ اب کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے۔ رفاقت مسیح کی طرح محمد اویس چک نمبر 236رب کا رہائشی ہے‘ اور پیدائشی نابینا ہے۔جسے نادرا کی جانب سے معذوری کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جا چکا ہے۔اویس کے والد ایک سرکاری سکول میں بطور مالی کام کرتے تھے‘ محمد اویس کا کہنا ہے کہ والد کی وفات کے بعد ا ن کی جگہ پر اسے نوکری ملنا چاہئے تھی مگر نہ تو اسے نوکری دی گئی ہے اور نہ ہی والد کی پنشن ادا کی جارہی ہے۔ پنشن کے حصول کے لئے وہ دوسال سے مختلف دفاتر کے چکر لگا رہا ہے۔نادرا کی جانب سے خصوصی کارڈ(معذوری کی تصدیق) جاری ہونے کے باوجود اسے کبھی اسے میڈیکل سرٹیفکیٹ بنانے کا کہا گیا اور جب سرٹیفکیٹ بنوا لیا گیا تو اس کے باوجود اعتراضات عائد کر کے اسے پنشن جاری نہیں کی گئی ہے۔سرکاری ملازمت کے لئے اگر وہ کہیں جاتا ہے تو اسے ان فٹ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتاہے جبکہ پنشن کے حصول کے لئے جائے تو کہا جاتاہے کہ کام کرنے کی اہلیت رکھنے کی وجہ سے پنشن جاری نہیں کی جاسکتی ہے‘یہ صرف ایک محمد اویس کی کہانی نہیں ہے پاکستان میں ایسے بہت سے افراد اپنی بے بسی کی داستانیں سناتے نظر آتے ہیں جن کی بحالی کے لئے حکومتی سطح پر بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں مگر صورتحال اس کے برعکس نظرآتی ہے۔افراد باہم معذوری کے حوالے سے کام کرنے والے افراد اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس جسمانی معذوری کے شکار افراد کے حوالے سے درست اعداد وشمار ہی موجود نہیں ہیں‘ جب درست اعداد و شمار موجود نہ ہو ں تو پھر بحالی یا فلاح و بہبود کے منصوبے کیسے بنائے جا سکتے ہیں؟ادارہ شماریات سے حاصل کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق سال2017کی مردم شماری کے مطابق فیصل آباد میں افراد باہم معذوری کی تعداد 37,911ہے‘ جبکہ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی‘ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور دیگر اداروں سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 12 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق افرا د باہم معذوری جن میں پولیو سے متاثرہ افرا د‘ پیدائشی نابینا‘گونگے بہرے‘ حادثات اور بیماریوں سے متاثرہ افراد شامل ہیں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ آمنہ عالم کا کہنا ہے کہ سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کے پاس ان افرا دکے حوالے سے معلومات ہوتی ہیں جن کو معذوری کے سرٹیفکیٹس جاری کئے جا چکے ہوتے ہیں۔انہی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے انہیں (افراد باہم معذوری کو) خصوصی شناختی کارڈ جاری کئے جاتے ہیں‘ ب فارم کے لئے بھی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور میڈیکل بورڈ سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری ہے مگر ا س کے باوجود سرکاری اداروں کے پاس افراد باہم معذوری کے تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے یہ لوگ یا ان کے اہل خانہ ان کی رجسٹریشن کروانے سے کتراتے ہیں یا اسے اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔فیصل آباد میں افراد باہم معذوری کی فلاح و بہبود کے ادارے ”تنظیم النسان“ کے سربراہ افتخار احمد کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں جسمانی نقائص یا معذوری کو ابھی تک معیوب سمجھا جاتاہے ایسا بچہ جو کسی نقص یا معذوری کا شکار ہوتا ہے ا س کے حوالے سے والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بار میں کسی کو پتہ نہ چلے‘یہی معاملہ بڑوں کے ساتھ بھی ہے جب تک انہیں ملازمت وغیرہ کی ضرورت نہ ہوکسی سرکاری ادارے کے پاس اندارج یا رجسٹریشن نہیں کرواتے ہیں‘ یہ رحجان مایوس کن ہونے کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی کیونکہ درست اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو افراد باہم معذوری کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی آبادی کے تناسب سے ان کے لئے فنڈز مختص کئے جا سکتے ہیں۔ درست اعداد وشمار نہ ہونے کی وجہ سے افراد باہم معذوری کو روزگار کے حصول میں بھی دشواری کا سامناہے‘ کیونکہ ان کی تعداد کے حوالے سے سرکاری اداروں میں کوٹہ سسٹم کے تحت اسامیوں کا تعین کیا جاتاہے‘جب درست اعداد و شمار نہیں ہوں گے تو اسامیوں کا تعین کیسے ہوسکتاہے؟ حکومت کی جانب سے نجی اداروں کو ملازمین کے تناسب سے معذور افراد کو روزگار دینے کے لئے پابند کیا گیاہے‘ مگر اس پر بھی عملدرآمد نہیں کا جارہا ہے‘ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر مزمل یار کا کہنا ہے کہ تما م صنعتی ادارے ورکرز کے تناسب سے دو فیصد ملازمتیں یا روزگار افراد باہم معذوری کو دینے کے پابند ہیں‘ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان اداروں پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے جبکہ اس حوالے سے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی پابندی کے باوجود نجی ادارے اس پر عملدآمد نہیں کر رہے ہیں جرمانے سے بچنے کے لئے وہ ایسے ملازمین کو دکھا دیتے ہیں جو ملازمت کے دوران حاد ثے کا شکار ہو کر زخمی ہوئے ہوں‘ یہ افراد معذوری کی شرائط اور معیار پر بھی پورا نہیں اترتے مگر اس کے باوجود انہیں افراد باہم معذوری کے کھاتے میں ڈال کر جرمانے سے بچا جایا جاتاہے۔تاہم اس حوالے سے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کا دعوی ہے کہ افراد باہم معذوری کو روزگار فراہم نہ کرنے ایک سال کے دورصنعتی اداروں سے چالیس لاکھ روپے سے زائد وصول کئے جا چکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے افراد باہم معذوری کے لئے اعزازیے یا امدادکے اعلانات اپنی جگہ پر مگر افراد باہم معذوری کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کے لئے روزگار کے محدود ہوتے ذرائع ایک بڑا مسلہ ہے۔گزشتہ کچھ عرصہ سے افراد باہم معذوری کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے‘ جس کی بڑی وجہ حادثات (روڈ ایکسڈنٹ) ہیں جبکہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بھی بینائی اور ذہنی امراض کی وجہ سے لوگوں میں جسمانی نقائض(معذوری) میں اضافہ ہورہا ہے‘ ماہر اطفال ڈاکٹر ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ بچوں میں جسمانی نقائص (معذوری) کا بڑا سبب الیکٹرانکس گیجٹس (موبائل فون‘ لیپ ٹاپ‘ ٹیب وغیرہ) ہیں ا ن کے زیادہ استعمال کی وجہ سے بچے آٹزم کا شکار ہورہے ہیں‘ ا ن کے پاس علاج معالجے کے لئے آنے والے بچوں کے والدین بتاتے ہیں کہ ان کا بچہ بالکل صحتمند تھا اچانک سے اسے کچھ ہوا ہے اور جب بچے کے معمولات بارے پوچھا جاتاہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ موبائل یا کسی اور گیجیٹ کا بہت زیادہ استعمال کر رہا تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکٹرانکس گیجٹس کے غیر ضروری استعمال‘ ماحولیاتی آلودگی اور حادثات پر کنٹرول کرکے جسمانی معذوری بڑپنے کی شرح پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *