Author HumDaise View all posts
طارق اسماعیل
باد نسیم سے مہکنے والے فرید پارک کےساتھ سرائیکی ایریاسٹڈی سنٹربہاالدین زکریا یونیورسٹی میں سرائیکی ثقافت سے جڑی شاندار روایات کو اجاگر کرنے کے لئے کلچرل ڈے کاانعقاد کیاگیا جس نے ہمیں نفسانفسی کے عالم سے نکال کر واپس شانتی اورسکون کے زمانے میں پہنچایاہے۔جی ہاں وہی زمانہ جس میں پیار ہےرومان ہے،رومانس ہے،پریم ہے،گفتگو ہے،کہانی ہے،مقالمہ ہےاعتراف ہے،اعتماد ہے، اعتقاد ہے احترام ہےخوشبوہے،رنگ ہیں خوشیاں ہیں،نزدیکیاں ہیں ور خلوص بھری اپنائیت ہے۔اس بار سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نسیم اختر نے ثقافت کادن چھبی رومال کے سلوگن سے منانے کا آئیڈیادیا۔چھبی رومال ہمارے ہاں خانہ داری امور میں سگھڑپن اور مہمان نوازی کے اعلیٰ ظرف کا حوالہ بھی ہے ۔طبی لحاظ سے بھی اس میں روٹی اور کھانے کی دوسری اشیا اپنی غذائیت برقرار رکھتی ہیں اور مضرصحت جراثیم سے محفوظ رہتی ہیں۔گزشتہ سال گھڑااورگھڑاونج کا سلوگن تھا۔کلچرل ڈے کی تقریبات کاخاکہ میڈم ڈاکٹر نسیم اختر نے بنایااور اس میں بی ایس ،ایم ایس کے طلبا وطالبات کے ساتھ ایم فل سکالرز نے اپنی محنت اور قابلیت سے رنگ بھرکرثابت کیاکہ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر ہماری زبان وادب کی ترویج کے ساتھ ہماری ثقافت اورثقافتی اقدار کا امین بھی ہے۔فیکلٹی ممبران طلباوطالبات اور سکالرز نے بھرپور محنت کی۔ان میں عمار یاسر کھاکھی،مقسوم اصغر،وقار اسلم،علی حسن اور عتیق الرحمان سمیت سب شامل ہیں۔ان خاکوں میں رنگ بھرتی بچیاںمیری مابولی کی محافظ ہیں اور طلباسفیر۔اس دن کو خاص بنانے کے لئے ایک قسم کا ثقافتی اور بہاریہ میلےکا اہتمام تھا۔کلچرل ڈے میں شامل بچیوں کو دیکھ کر ایسالگا کہ یہ سب میری ماہین فاطمہ اور زویا ایمان ہیں۔سرائیکی کلچرل ڈے ایک خوبصورت موسم میں منایاگیا۔جی ہاں یہی تو موسم ہے جس میں چیتر بہار کے میلے منائے جاتے ہیں۔ہمارے سنگ سب کے سنگ چلتے ہیں۔سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کے مرغزار میں نہیلے میں مٹورارکھ کر اس میں مدھانی کی نمائش نے ہمیں ایک عہد یاددلایا جب ہر گھر کی صبح ان کے چلنے سے ہوتی تھی اور پوری بستی کے بچے بچیاں ہماری ماؤں، دادیوں سے لسی لینے کے لئے آتے،یہ بہت برکت والازمانہ تھا۔سرائیکی زبان وادب کی استاد مقسوم اصغر نے یہ سٹال سجا کر واضح کیا کہ جب یہ چیزیں ہمارے گھروں میں تھیں تو ہمارے جگر ٹھنڈے اور مزاج معتدل ہوتےتھے۔دل جگر کے ہسپتال بھی نہیں بنے تھے اور نہ ہی یہ بیماریاں عام تھیں۔ہمارے اندر برداشت کا ایک حوصلہ ہوتاتھا۔کلچرل ڈے کی نمائش میںصراحی،گندم اور چینڑاصاف کرنے میں استعمال ہونے والادوراموہلا،درانتی،چھج سندھڑا،گھڑاسمیت مختلف اشیارکھی گئی تھیں۔کلچرل ڈے ایک رومان پرورموسم میں منایاگیا۔یہ اکھیوں سے اکھیاں ملانے کا موسم ہے۔سندر سپنے دیکھنے کاموسم،فاصلے کم کرنے کاموسم،کسی کو غم میں دیکھ کر اس کے دکھ سمیٹنے کا موسم،بچھڑکرلمبی جدائی دینے والوں کی مونجھ میں مونجھینےکاموسم۔تن من کے مچلتےجذبات کاموسم،کلچرل ڈے اور بہار کی یہ رت ہمیں ایک ایسے دور میں لے گئی جوجیون دان کرنے کی یقین دہانی کراتاہے۔یہ موسم انسان کو پریم پریت میں مست کرنے کی ایک ایسی سوکھڑی ہے جو اس کی جمالیات کو اتم کرتی ہے۔یہ موسم حیات کو نیالباس پہناتاہے۔خزاں میں کھتے درختوں کو نیالباس پہناتے ہوئے ان کو پھولوں کے زیور سے مزین کرکے خوش پوش کرتا ہے۔اس میں کائینات کے رنگ بھرتا ہے۔مست الست ہوتی تتلیوں کو سندر رنگوں سے ایسارنگتاہےجوبھنوروں پر عاشق کا اسقدرروپ چڑھاتاہے جو رانجھے اور مجنوں کی سنت اداکرنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔ہماری ثقافت کو بہاریہ موسم اور نکھارتاہے ۔سرائیکی کلچرل ڈے نے ہمیں یاد دلایا کہ یہ موسم بچوں کے ہاتھ پتنگ،نینوں میں کاجل لگانے ،ماتھے پر بندیا سجانے کے ساتھ خوبصورت ہونٹوں پر مساگ کا رنگ چڑھاکر پریمیوں کے دل کو ساز میں تبدیل کرتاہے۔اورپھپھڑتی ٹاہلی ،کیکر اور شرہینہ کے درختوں پر گاتی کوئل کے گیت سنگیت کو امر تاہے۔گلاب کی کلیوں،چنبیلی اور موتیاکے پھولوں کی مالابنانے کا موسم ہے۔میم ڈاکٹر نسیم اختر نے نمائش میں چھبی رومال اس ترتیب اور سلیقے سے سجاکررکھوائے ہوئے تھے کہ لگتا تھا کہ ان میں ڈولی روٹی،ساگ،چلڑے،سہانجنا،کچناراور میٹھے ڈھوڈے،ٹکڑے اور گڑ والے چاول تیار پڑے ہوں۔گو کہ یہ چیزیں کھانے کو تو نہ مل سکیں لیکن ہمیں اس زمانے میں ضرور لے گئیں جب ان کے ذائقےہمارے حصے میں آئے۔پیزے کی سڑن اوربےلذت شوراماتک محدود ہوتی موجودہ نسل کیاجانے کہ ہمارے ان کھانوں میںکیسی لذت اور چاشنی تھی۔ایم فل کے پہلے سیشن میں ایک خاتون سکالر نے بتایاتھا کہ میم نسیم اخترخرچ کئے بغیرنمائشی اشیا سےبھی مہمان نوازی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔کلچرل ڈے پر چھبی رومال سمیت اشیارکھنے سے مختلف روایتی کھانوں کی خوشبوسب نے محسوس کی۔ڈاکٹر نسیم اختر ہماری ایک قابل ترین استاد ہیںاور مجھےان کے غصے سےبہت ڈر لگتاہے۔کلاس پڑھاتے اور تھیسسزکی نگرانی کرتے وقت بہت ڈانتی ہیں۔فی الحال آپ کلچرل ڈے کے چبھی رومال کے سلوگن کو یاد رکھیں۔پرندوں اور فطرت سے پیار بھی ہماری ثقافت اورثقافتی اقدار کا حصہ رہاہے۔کلچرل ڈے جب منایا گیاتویہ سائبیریا سے آئے مہمان پکھیوں کو الوداع کرتا موسم ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ اڈاری مارتےیہ پکھی اپنے وطن واپس جاتے سخی سرور کا پھیرا لگاکر اگلے سیزن میں آنے کاوعدہ اس ارداس کے ساتھ کرتے ہیں کہ ہمیں بندوق کی گولی سے دیکھنا بند کیاجائے ،ہم تواس دھرتی کوجائے امان سمجھ کرآتے ہیں،ان کو پناہ دینااور ان کی رکشا کرنابھی ہماری ثقافتی اقداراور ہماری تربیت کا حصہ ہیں۔ہماری مضبوط ثقافتی اقدار کادن منانے سےہمیں نئے خواب، پیار کی زبان گیتوں پرلاکرجھمرڈالنے کی شد ملتی ہے۔سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر میں منائے جانے والے کلچرل ڈے میں ہماری ثقافت کی پہچان پگ کی مریادا یاد دلائی گئی۔تقریبات کی نگرانی کرتے ایک خوبصورت پگ ہماری میڈم ڈائریکٹر ڈاکٹر نسیم اختر نے پہن کرثقافتی رنگ اجاگر کیا۔عمار یاسر کھاکھی سب سے منفرد اور کلچرل ڈے میں خوب رنگ بھرا۔بےہنگم زندگی سے بیزار کرتے حالات میں جہاں ہم اپنی ثقافت اور ثقافتی اقدار سے دور ہوتے جارہے ہیں وہاں ہمارے بچوں نے بتایا کہ ہمارے بڑوں کے ململ کے پٹکے میں کس قدر باقار اناہے ۔کلچرل ڈے میں ہماری بچیوں نے پیغام دیا کہ ہماری ماؤں کی چادروں میں کس طرح کی تہذیب پنہاں ہے۔ہم نے چادروں کی تہذیب یافتہ ماؤں سے بھلے کتنی ہی ڈانٹ ڈپٹ سمیٹی ہولیکن انکی چادروں سے لپٹ کرکھیلنے اور ضد کرنا کیسے بھول سکتے ہیں،کیاوہ وقتاب واپس آسکتاہے۔بی ایس اور ایم ایس کی طالبات نےثابت کیاکہ بیٹیوں کے دوپٹوں (بوچھن)میں کتنی حیااور اعتماد ہے۔ایم فل سکالربچیوں نے بتایا کہ بہنوں کی چادروں میں شرم کےساتھ کس قدر وفاہے اور یہ سب ہماری ثقافت کے مضبوط حوالے ہیں۔ڈائریکٹرسرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر ڈاکٹر نسیم اختر نے بہت خوبصورت بات کی کہ طلباء کے لیے علاقائی اور تہذیبی سرگرمیوں کو اجاگر کرنا تعلیمی اداروں کا کام ہے۔ایسی سرگرمیوں سے خود اعتمادی بڑھتی ہے اور نئی نسل دوسری تہذیبوں سے متاثر ہو کر احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتی۔ اگر ہم اپنی تہذیب اور تمدن کو کمتر سمجھیں گے اور بچوں کو دوسری تہذیبوں کے تہوار دکھاتے رہیں گے تو معاشرہ خود اعتمادی کھو دے گا۔اور نوجوان نسل اپنے اصل جوہر کو کارگر نہیں کر پائے گی۔اگر غیر نصابی سرگرمیوں میں ثقافت،ریت،رواج کو جاننے کے مواقع پیدا کیے جائیں تو ہماری نوجوان نسل اپنی ثقافت،تمدن اور تخلیقی روایتوں سے محبت کرنے لگے گی۔جس سے نہ صرف ان کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ اس پر فخر محسوس کریں گے۔اپنی میٹھی زبان کو بولنا،اپنی خوبصورت ثقافت کا پہناوا پہننا،اپنی ثقافت کا عملی طور پر اظہار کرنا دراصل اپنی دھرتی ماں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔محترمہ ڈاکٹر نسیم اختر کاکہنا تھا کہ وادی سندھ کی سندرتا کو اجاگر کرناہےتو آپسی محبت اور اتحاد کو مضبوط کرنا ہے۔اگر ہم اپنی ثقافتی جڑوں کی آبیاری کرتے رہیں گے تو ہی اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکیں گے۔کلچرل ڈے پر ہماری پرزور فرمائش پر کالا جوڑا پہنےسرائیکی زبان ادب پڑھانے والےوزٹنگ فیکلٹی ممبروقار اسلم کی خوبصورت آنکھیںبھی توجہ کامرکز رہیں۔کیونکہ ہم ان آنکھوں کےشاہد،مشہوداور مشاہدے کی تکون میں ایسےمقید ہوئے کہ خوبصورت آنکھوں میں دیکھنے کی جرات نہ ہوسکی،خوبصورت آنکھیں میری کمزوری رہی ہیں لیکن ان کا کبھی سامنانہیں کرسکااور اسی لئےاس معاملے میں بہت ڈرپوک واقع ہواہوں۔اسی تذبذب میں ناظر،منظور اورنظارے کی کیفیت سے گزرتے گزرتے یہ احساس دامن گیر ہوچلاکہ وقار اسلم کی خوبصورت آنکھوں کو دیکھ پر ان پر مرنے کو دل کرتا ہے۔اور۔میںابھی مرنا نہیں چاہتا۔کیونکہ آپ کے کلچرل ڈے کی اپنائیت نے مجھے اپنےشاندار ثقافتی اقدار سے جڑےبدلتے زمانے میں پھر سےجینے کی امید دلائی ہے اور آپ یقین کریں کہ یہ بدلتا زمانہ ہے اور میں جینے کے لئے بدلتازمانہ میں ہوں اور اب یہ آپ کی خوبصورت آنکھوں کے سامنے ہے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *